زخم گناہ چاہتی ہے جان ان دنوں
آنسو ہی اب تو ہو گئے پہچان ان دنوں
دوشیزۂ زندگی سے دل اچاٹ ہو گیا
ہے موت کی حسینہ سے پیمان ان دنوں
سنگ کھاتے کھاتے مر گیا آشفتہ آدمی
زندہ ہے مجھ میں اک نیا انسان ان دنوں
اتنے ایمان لایا ہوں میں بات بات پر
صاحبِ ایمان ہو گیا بے ایمان ان دنوں
دُکانِ عشق بھی نہ مجھے راس آ سکی
نفعے سے بڑھتا جاتا ہے نقصان ان دنوں
نیلے زہر سے لکھنے کا ہے شوق آج کل
غزل میں چاشنی کا ہے فقدان ان دنوں
تائب ہوا تو حسن نے وہ گُر سکھا دئیے
لب پہ لا حول، دل میں ہے سبحان ان دنوں
مجنوں کی جان چھوڑی تو رانجھے کو جا لیا
درسِ فنا کا دل پہ ہے رجحان ان دنوں
چپ دیکھ کر سب پوچھتے ہیں دن میں بارہا
رزب! ہے کس طرف تیرا دھیان ان دنوں
رزب تبریز
No comments:
Post a Comment