Sunday, 25 May 2025

زخم گناہ چاہتی ہے جان ان دنوں

 زخم گناہ چاہتی ہے جان ان دنوں

آنسو ہی اب تو ہو گئے پہچان ان دنوں

دوشیزۂ زندگی سے دل اچاٹ ہو گیا

ہے موت کی حسینہ سے پیمان ان دنوں

سنگ کھاتے کھاتے مر گیا آشفتہ آدمی

زندہ ہے مجھ میں اک نیا انسان ان دنوں

اتنے ایمان لایا ہوں میں بات بات پر

صاحبِ ایمان ہو گیا بے ایمان ان دنوں

دُکانِ عشق بھی نہ مجھے راس آ سکی

نفعے سے بڑھتا جاتا ہے نقصان ان دنوں

نیلے زہر سے لکھنے کا ہے شوق آج کل

غزل میں چاشنی کا ہے فقدان ان دنوں

تائب ہوا تو حسن نے وہ گُر سکھا دئیے

لب پہ لا حول، دل میں ہے سبحان ان دنوں

مجنوں کی جان چھوڑی تو رانجھے کو جا لیا

درسِ فنا کا دل پہ ہے رجحان ان دنوں

چپ دیکھ کر سب پوچھتے ہیں دن میں بارہا

رزب! ہے کس طرف تیرا دھیان ان دنوں


رزب تبریز

No comments:

Post a Comment