Tuesday, 20 May 2025

حال ہمارا کیا پوچھو ہو آگ دبی اکساؤ ہو

 حال ہمارا کیا پوچھو ہو آگ دبی اکساؤ ہو

شعلے کب کے راکھ ہوئے اب خاک انہیں لہکاؤ ہو

پیڑ پہ جب پھل پات نہیں تو پت جھڑ کیا لے جائے گا

خرمن کب کا خاک ہوا بے کار ہمیں دھڑکاؤ ہو

کوئی ڈگر ہموار ملے تو اس کے سادھن کر ڈالو

ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جان کے دھوکا کھاؤ ہو

رشتے ناطے گانٹھ گرہ سے روز الجھتے جاتے ہیں

الجھن کی ہے ریت پرانی اس کو کیا سلجھاؤ ہو

کیسی کوئی چاہت واہت بہکی بہکی باتیں ہیں

اپنی اپنی راہ لگو کیا سن سن کے سنکاؤ ہو

رضواں تم کیا ناداں ہو کچھ کہنی اپنی کہہ ڈالو

دنیا کی جب آنکھ کھلے ہے تم ہی کیوں سو جاؤ ہو


رضوان اللہ

No comments:

Post a Comment