Monday, 26 May 2025

زندگی کی راہوں میں پر خطر اندھیرا ہے

 زندگی کی راہوں میں پر خطر اندھیرا ہے

دیکھ کر قدم رکھنا ہمسفر اندھیرا ہے

غم کی رات میں یوں تو زخمِ دل بھی روشن ہے

پھر بھی دیکھ لے آ کر، کس قدر اندھیرا ہے

تابناک ماضی کے ان حسین محلوں کا

ہر چراغ مُردہ ہے، ہر کھنڈر اندھیرا ہے

عزم کے چراغوں کی لو ذرا بڑھا لینا

دور تک یہاں ہے اب ہمسفر اندھیرا ہے

روشنی کا پرتو تھی تیری دید کی امید

خیر ہو نگاہوں کی بام پر اندھیرا ہے

عارضوں کی صبحوں پر شام بن کے چھا جائے

زلف جس کو کہتے ہیں سر بسر اندھیرا ہے

اک فقیر کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں لوگوں نے

اے شمیم! اس دن سے در بدر اندھیرا ہے


سخاوت شمیم

No comments:

Post a Comment