زندگی کی راہوں میں پر خطر اندھیرا ہے
دیکھ کر قدم رکھنا ہمسفر اندھیرا ہے
غم کی رات میں یوں تو زخمِ دل بھی روشن ہے
پھر بھی دیکھ لے آ کر، کس قدر اندھیرا ہے
تابناک ماضی کے ان حسین محلوں کا
ہر چراغ مُردہ ہے، ہر کھنڈر اندھیرا ہے
عزم کے چراغوں کی لو ذرا بڑھا لینا
دور تک یہاں ہے اب ہمسفر اندھیرا ہے
روشنی کا پرتو تھی تیری دید کی امید
خیر ہو نگاہوں کی بام پر اندھیرا ہے
عارضوں کی صبحوں پر شام بن کے چھا جائے
زلف جس کو کہتے ہیں سر بسر اندھیرا ہے
اک فقیر کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں لوگوں نے
اے شمیم! اس دن سے در بدر اندھیرا ہے
سخاوت شمیم
No comments:
Post a Comment