اک دوسرے کا درد سمجھتا کوئی نہیں
حیرت یہ ہے کہ خود سے شناسا کوئی نہیں
میں کب سے چیختا ہوں؛ بُرائی کو چھوڑو
افسوس، میری بات کو سُنتا کوئی نہیں
دیکھیں اگر بغور تو اپنے ہیں سب یہاں
سوچیں اگر بغور تو اپنا کوئی نہیں
سب لوگ فرطِ شوق سے دیکھے ہیں تتلیاں
اس شہر میں اب اور تماشا کوئی نہیں
بس ان کے انتخاب میں دونوں شریک تھے
یوں عقل و دل کے درمیاں رِشتہ کوئی نہیں
ایسی سہولتیں تو مہیا یہیں پہ ہیں
ملکِ عدم میں جا کے پلٹتا کوئی نہیں
ہم بحرِ غم میں ڈُوب کے اُبھرے ہیں بار بار
یوں ڈُوبنے کے بعد اُبھرتا کوئی نہیں
گوہر کسی کو نقدِ ہُنر کی نہیں ہے قدر
اس کے علاوہ اپنا اثاثہ کوئی نہیں
کلدیپ گوہر
No comments:
Post a Comment