آنکھوں کو آنسوؤں سے محبت ہے کیا کروں
دل پر تمہارے غم کی حکومت ہے کیا کروں
شیشوں کا ہے مکان کہ حیرانیوں کا گھر
صورت ہر ایک تیری ہی صورت ہے کیا کروں
ہو کر کبھی ادھر سے گزرتی نہیں بہار
میرے چمن کو تیری ضرورت ہے کیا کروں
اک پل بھی جیسے سیکڑوں صدیاں ترے بغیر
ہر سانس جیسے ایک قیامت ہے کیا کروں
جینے ہی دے اسیر نہ مرنے ہی دے مجھے
اک تیر نیم کش کی عنایت ہے کیا کروں
اسیر جبلپوری
No comments:
Post a Comment