Sunday, 25 May 2025

اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا

 اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا

آخر کہیں تو ختم ہو ویرانہ دشت کا

مجھ کو بھی غرق بحر تماشا میں کر دیا

اب حد سے بڑھتا جاتا ہے دیوانہ دشت کا

تعویذ آب کے سوا چارہ نہیں کوئی

آسیب تشنگی سے ہے یارانہ دشت کا

تو نے شکست کھائی محاذ قیام پر

اب سکۂ سفر میں دے ہرجانہ دشت کا

ہوتا نہیں جو خالی کبھی جام آفتاب

دن بھر ہی گرم رہتا ہے میخانہ دشت کا

اب ظلمتوں کا خوف نہیں خاک شہر کی

روشن ہے شمع ریگ سے کاشانہ دشت کا

آداب منصفی سے میں واقف نہیں حسن

شہر خطا میں کرتا ہوں جرمانہ دشت کا


حسن عزیز

No comments:

Post a Comment