ہوا پھر عکس اپنا یوں جدا آہستہ آہستہ
کہ جیسے ہاتھ سے رنگ حنا آہستہ آہستہ
بہت مانوس نظروں سے اچانک کیسے ہٹ جاتا
میں منظر سے پس منظر ہوا آہستہ آہستہ
پھر اس کے بعد ڈھونڈا جائے گا میرا بدن یعنی
مجھے مشہور کر دے گی ہوا آہستہ آہستہ
لہو کی رینگتی رسی رگوں کو جکڑے جاتی ہے
دبی جاتی ہے دھڑکن کی صدا آہستہ آہستہ
اٹھائی جا رہی ہیں جلدی جلدی نور کی لاشیں
ہوا جاتا ہے مدھم اک دیا آہستہ آہستہ
کسی بوڑھے شجر سے پھر نئی دیواریں سیکھیں گی
ٹھہر کر چھاؤں دینے کی ادا آہستہ آہستہ
مجھے اپنی طرف کھینچو مجھے پیوست جاں کر لو
مگر تھوڑا تحمل سے ذرا آہستہ آہستہ
اسی اک شاخ نرگس کے وسیلے سے ہوا آخر
علاقہ در علاقہ پھر ہرا آہستہ آہستہ
ثاقب ہمراز
No comments:
Post a Comment