Monday, 19 May 2025

سپاٹ چہرہ ہے آنکھوں میں خواب تک بھی نہیں

 سپاٹ چہرہ ہے آنکھوں میں خواب تک بھی نہیں

بچھڑ رہے ہیں، مگر اضطراب تک بھی نہیں

تِرا خیال تو پھر بھی وجود رکھتا ہے

میں ایسا دشت ہوں جس میں سراب تک بھی نہیں

وہ چاہتا ہے کہ تحفے میں باغ دوں اس کو

مِری رسائی تو شاخِ گُلاب تک بھی نہیں

یقین جان، یہ دیمک زدہ معاشرہ ہے

کسی کے گھر میں مُقدس کتاب تک بھی نہیں

یہ کہکشائیں کسی اور شخص کی ہوں گی

ہمارے پاس تو اک آفتاب تک بھی نہیں

ہمارے اُجڑے ہوئے دل کا حال مت پوچھو

وہ مے کدہ ہے کہ جس میں شراب تک بھی نہیں

میں جاں پہ کھیل کے دُشمن کی جاں بچا رہا ہوں

یہ ایسی نیکی ہے جس کا ثواب تک بھی نہیں

رقیب کے لیے حاضر ہیں جسم و جاں گوتم

مِرے لیے دلِ خانہ خراب تک بھی نہیں؟


گوتم ملتانی

No comments:

Post a Comment