شیشے کا مکان
مٹھی بھر خاک سے زیست کا سامان
ریت کے تودے پر شیشے کا مکان
جو بن جائے تو مکینوں کے دھڑکتے دل
خوف سے لرزا و ہراساں رہیں ہر پل
کہ پورب سے آئی آندھی
یا پچھم سے پتھر کی ضرب
چہار جانب چنگیز و ہلاکو کے جانشیں
امن و شانتی کے پردوں میں ہلاکت کی باتیں
جن سے لرز جائیں پہاڑوں کے پرت
کمزور ہاتھ دعاؤں کے لئے اٹھتے ہوئے
نئی تہذیب میں خود کو تنہا دیکھ کر
کہ پورب سے آئی آندھی
یا پچھم سے پتھر کی ضرب
مٹھی بھر خاک سے زیست کا سامان
ریت کے تودے پر شیشے کا مکان
ڈآکٹر مسعودہ امام
No comments:
Post a Comment