Tuesday, 27 May 2025

گم ہو نہ جائے رونق بازار کیا کریں

 گُم ہو نہ جائے رونقِ بازار کیا کریں

مہنگائی اس قدر ہے خریدار کیا کریں

بچوں سے اپنے اُنس کا اصرار کیا کریں

ہم خود ہیں اپنی ذات سے بیزار کیا کریں

عزت کا پاس کوئی بھی کرتا نہیں ہے اب

شہرِ انا میں صاحبِ دستار کیا کریں

پتھرا گئی ہوں رات کی آنکھیں ہی جب تو پھر

ظُلمت کدوں میں دیدۂ بیدار کیا کریں

کاندھوں پہ سب کے رکھی ہوئی ہے صلیبِ شب

اے صبحِ زندگی! تِرے غمخوار کیا کریں

آتی نہیں ہے دل کے دھڑکنے کی بھی صدا

اس خامشی میں صاحبِ گُفتار کیا کریں

اہلِ زباں کے منہ سے زباں کھینچ لی گئی

اب بے زبان جرأتِ اظہار کیا کریں

دستِ ستم نے کاٹ لی بینائیوں کی فصل

اہلِ نظر شعور کا پرچار کیا کریں

بہرے ہیں کان ذوقِ سماعت کے باوجود

دھرتی پہ آج عدل کے اوتار کیا کریں

ہر سمت اضطراب ہے بھونچال کی طرح

ایسی فضا میں ثابت و سیّار کیا کریں

اب زہرِ حبس صحنِ چمن کی ہے زندگی

ساغر! امینِ نکہتِ گلزار کیا کریں


ساغر مشہدی

No comments:

Post a Comment