کب دھلتی ہے چہرے سے یہ گردِ سفر پوچھو
آوارہ ہواؤں سے موسم کی خبر پوچھو
پھر لوگ بناتے ہیں تعمیر کا منصوبہ
مٹ جائیں گے نقشہ سے کیا اور بھی گھر پوچھو
کہنے کو تو کہہ دیں گے احوال زمانے کا
اور خود سے بھی غافل ہیں سچ بات اگر پوچھو
مشہور ہو تم کتنے معلوم تو ہو جائے
چوراہے پہ رک جاؤ اور اپنا ہی گھر پوچھو
بوسیدہ کتابوں میں کیا ڈھونڈتے ہو افسر
جلتی ہوئی آنکھوں سے دنیا کی خبر پوچھو
سعید افسر
No comments:
Post a Comment