Saturday, 17 May 2025

یہ نار محبت کہیں تجھ کو نہ جلا دے

 یہ نارِ محبت کہیں تجھ کو نہ جلا دے

یادوں کی دبی راکھ کو ہرگز نا ہوا دے

لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں میسر

ممکن ہے تو اس بار ہمیں سچ میں گنوا دے

کب تک تِری یادوں کی اذیت کو سہوں میں

اس کرب سے مجھ کو کوئی آزاد کرا دے

جینے نہیں دیتا یہی احساس شب و روز

سالوں کی رفاقت کوئی لمحوں میں بھلا دے

قائم ہی رہیں گے سدا ہم اپنی وفا پر

تو ظلم کی شدت کو بھلے اور بڑھا دے

یہ سوچ کے دل تجھ کو نہیں بھولا ابھی تک

شاید کہ کسی موڑ پہ تو ہم کو صدا دے

وہ شخص بھلا کیسے سکوں پائے کہ جس کی

صدیوں کی ریاضت کوئی مٹی میں ملا دے

اس دور میں ممکن نہیں حق بات بھی کہنا

مجرم ہوں اگر میں مجھے سولی پہ چڑھا دے

دنیا تِرے اخلاص کو سمجھے گی نہ عاصی

بہتر ہے کہ جذبوں کو تہہ خاک سلا دے


عاصمہ فراز سلہری

No comments:

Post a Comment