دل کے کہنے پہ میں چلا ہی نہیں
عشق کی چال میں پھنسا ہی نہیں
اس گرانی میں عشق کو ٹٹولا
لاکھ پیٹا مگر چلا ہی نہیں
جس طرح میں لٹا جوانی میں
یوں کوئی آج تک لٹا ہی نہیں
آج ساری اکڑ نکل جاتی
کوئی غنڈہ ہمیں ملا ہی نہیں
کل جو کہتے تھے غیر کو اندھا
آج خود ان کو سوجھتا ہی نہیں
ان اداؤں پہ مر گئے لاکھوں
ان کے نزدیک کچھ ہوا ہی نہیں
ناوک لکھنوی
اشیاق حسین ظریفی
No comments:
Post a Comment