Friday, 23 May 2025

یوں جو کھلتا ہے زمانے کا بھرم اچھا ہے

 یوں جو کھلتا ہے زمانے کا بھرم اچھا ہے

ہم پہ ہوتے ہیں زمانے کے ستم اچھا ہے

وہ قدم کیا جو تجسس میں رہے منزل کے

بڑھ کے خود چوم لے منزل وہ قدم اچھا ہے

ہے تمنائے اسیری تو کبھی اس میں الجھ

گیسوئے وقت کا پیچ اچھا ہے خم اچھا ہے

امن و انصاف و مساوات کی خاطر لوگو

تم اٹھاؤ جو بغاوت کا علم اچھا ہے

قطرے ملتے ہیں تو وہ ہوتے ہیں دریا میں شمار

ہم ملا کر جو چلیں اپنے قدم اچھا ہے

شیشۂ دل میں تو ہے دوست کے عرفاں کی شراب

شیشۂ دل سے کہاں ساغر و جم اچھا ہے

مل کے کچھ کرنے کا اب آیا ہے وقت اے یارو

جس قدر ہم میں رہے فاصلہ کم اچھا ہے

اختر آ کر چمن گنگ و جمن کو دیکھے

جو یہ کہتا ہے کہ گلزار ارم اچھا ہے


اختر مادھوپوری

No comments:

Post a Comment