Thursday, 22 May 2025

شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا

 شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا

سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا

ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال

ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا

ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے

دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا

جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین

دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا

کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت

دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا

دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی

خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا

ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اختر

دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا


اختر مادھوپوری

No comments:

Post a Comment