اس پہ جی سے گزر گئے شاید
نامہ بر جا کے مر گئے شاید
قاصد آتا نہیں خجالت سے
خط وہ لے کے مُکر گئے شاید
آئی جو ماہتاب میں رونق
بام سے وہ اُتر گئے شاید
ہم کو اپنی خبر نہیں ہمدم
دیکھ تو آ کے مر گئے شاید
خندہ زن ہے ہر ایک زخمِ جگر
دل کے ناسُور بھر گئے شاید
دلِ خانہ خراب مرتا ہے
وہ نہیں اپنے گھر گئے شاید
کرتے ہیں ترکِ عاشقی تسکیں
جاں نثاری سے ڈر گئے شاید
میر تسکین دہلوی
میر حسین
No comments:
Post a Comment