Saturday, 24 May 2025

اس پہ جی سے گزر گئے شاید

 اس پہ جی سے گزر گئے شاید

نامہ بر جا کے مر گئے شاید

قاصد آتا نہیں خجالت سے

خط وہ لے کے مُکر گئے شاید

آئی جو ماہتاب میں رونق

بام سے وہ اُتر گئے شاید

ہم کو اپنی خبر نہیں ہمدم

دیکھ تو آ کے مر گئے شاید

خندہ زن ہے ہر ایک زخمِ جگر

دل کے ناسُور بھر گئے شاید

دلِ خانہ خراب مرتا ہے

وہ نہیں اپنے گھر گئے شاید

کرتے ہیں ترکِ عاشقی تسکیں

جاں نثاری سے ڈر گئے شاید


میر تسکین دہلوی

میر حسین

No comments:

Post a Comment