سنگ جفا سے پس کے ولی خاک تو ہوا
بارے حریفِ گردشِ افلاک تو ہوا
یغمائے روزگار نے چھینا سکونِ دل
لیکن معاملات میں چالاک تو ہوا
دل کو مدافعت کے طریقے تو آ گئے
لُٹ کر رہِ حیات میں بے باک تو ہوا
کیا چاہیے اب اس کے سوا اور خوں بہا
رُخ انفعال سے وہ عرق ناک تو ہوا
میرے لہو نے لے تو لیا اس سے انتقام
میرے لہو کو پی کے وہ سفاک تو ہوا
چھُوٹے تو ہم کشا کشِ امید و بیم سے
قصہ کسی طرح یہ ولی پاک تو ہوا
ولی الحق انصاری
No comments:
Post a Comment