ہنر مندی جو تہمت بھر ملی ہے
تو رسوائی بھی شہرت بھر ملی ہے
مجھے تعبیر کی جھوٹی نمائش
حسیں خوابوں کی جنت بھر ملی ہے
وہ کیسا پیڑ تھا جو چھاؤں اس کی
مجھے سورج کی حِدت بھر ملی ہے
خدایا! ایک مٹھی زندگی بھر
یوں دنیا تو ضرورت بھر ملی ہے
مناظر تو بہت اچھے ہیں لیکن
خلش پھر کیوں بصارت بھر ملی ہے
ذرا سی دھوپ سے ڈرتے ہو رونق
مجھے صحرا کی وسعت بھر ملی ہے
رونق نعیم
No comments:
Post a Comment