Monday, 26 May 2025

ہنر مندی جو تہمت بھر ملی ہے

 ہنر مندی جو تہمت بھر ملی ہے

تو رسوائی بھی شہرت بھر ملی ہے

مجھے تعبیر کی جھوٹی نمائش

حسیں خوابوں کی جنت بھر ملی ہے

وہ کیسا پیڑ تھا جو چھاؤں اس کی

مجھے سورج کی حِدت بھر ملی ہے

خدایا! ایک مٹھی زندگی بھر

یوں دنیا تو ضرورت بھر ملی ہے

مناظر تو بہت اچھے ہیں لیکن

خلش پھر کیوں بصارت بھر ملی ہے

ذرا سی دھوپ سے ڈرتے ہو رونق

مجھے صحرا کی وسعت بھر ملی ہے


رونق نعیم

No comments:

Post a Comment