Sunday, 18 May 2025

لایا ہوں میں گلاب کا لہجہ نچوڑ کے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لایا ہوں میں گلاب کا لہجہ نچوڑ کے

داتا کی مدح کرنی تھی خوشبو کو جوڑ کے

ہوتا ہے جب چمن میں خراماں حسن کا لال

پڑتے ہیں پاؤں سرو و سمن دوڑ دوڑ کے

اتنا کہا تھا میں نے کہ داتا کا ہوں غلام

ساحل پہ خود گیا ہے بھنور مجھ کو چھوڑ کے

جوڑیں گے داتا اس کو بنا دیں گے آئینہ

لایا ہے گر تُو شیشۂ دل اپنا توڑ کے

داتا کے در پہ اس کا بھی شافی علاج ہے

کیونکر سرِ نصیب کو بیٹھا ہے پھوڑ کے

ہوتی نہیں ہے اس کے مقدر کی آنکھ بند 

داتا کا لطف رکھتا ہے جس کو جھنجوڑ کے 

بڑھتے نہیں ہیں میری طرف مشکلوں کے ہاتھ

رکھتے ہیں مشکلوں کے وہ بازو مروڑ کے

خواجہ بتا گئے ہیں کہ لے لو جو چاہیے

بیٹھا ہے گنج بخشی کی چادر وہ اوڑھ کے

داتا کے در کے ٹکڑوں نے رکھا ہے مطمئن

دنیا ہزار دیتی ہے جھانسے کروڑ کے

حسنی غزل رسیدہ تھا پر نعت کی طرف

داتا کی اک نظر اسے لائی ہے موڑ کے 


حسنی سید

سید محمد حسنین الثقلین

No comments:

Post a Comment