Tuesday, 27 May 2025

کیسے ہیں لوگ اور یہ کیسا دیار ہے

کیسے ہیں لوگ اور یہ کیسا دیار ہے

دیکھو جسے اسیرِ غمِ روزگار ہے

ہر ایک شخص بغض و حسد کا شکار ہے

یا رب! جہاں میں تیرے یہ کیا انتشار ہے

درماندگی سے لوگ ہراساں ہیں ہر طرف

دامانِ دل ہے چاک،۔ تو سینہ فگار ہے

صدیوں تلک تو ہم نے کیے اہتمامِ صبح

اب یہ ستم کہ "صبح" کا پھر انتظار ہے

دل جس کا داغدار ہے نفرت کی دھول سے

اس سے عبث ہے دوستی، وہ کس کا یار ہے

صالح! ابھی ہے وقت ذرا دیکھ بھال لو

ماضی پہ اپنے کس کا بھلا اختیار ہے


صالح اچھا

No comments:

Post a Comment