اگرچہ سر نہیں شانوں پہ سر کی آگ تو ہے
بریدہ دست سہی پر ہنر کی آگ تو ہے
جنوں کا اپنا تماشا، خرد کی اپنی مہک
ہمارے پاؤں میں روشن سفر کی آگ تو ہے
خموش شہر میں پھر قہقہہ سنائی دیا
اے زیست تجھ کو مبارک خبر کی آگ تو ہے
یہ آگ وہ نہیں جو معبدوں میں جلتی ہے
ہماری آنکھ میں زندہ نظر کی آگ تو ہے
جو گھر نہیں ہے تو کیا خواب ہی سہی گھر کا
ہمارے ساتھ ابھی دربدر کی آگ تو ہے
وطن سے دور سہی دل مگر وطن میں ہے
ہمارا گھر نہیں لیکن یہ گھر کی آگ تو ہے
سیاہ رات، یہ ٹھنڈی ہوا، یہ دل محبوب
میں تنہا سہی پر جگر کی آگ تو ہے
محبوب صابر
No comments:
Post a Comment