قلندر تھا کوئی سلطان تھا میں
کوئی دن دشت میں مہمان تھا میں
گِرا دیکھا اٹھایا نہ کسی نے
کہ لا وارث کوئی سامان تھا میں
چھُوا تم نے تو مجھ میں جان آئی
تو کیا اتنے دنوں بے جان تھا میں
مجھے ایک آدمی نے مار ڈالا
خطا اتنی تھی اک انسان تھا میں
تمہیں میں یاد اب تک بھی نہیں ہوں
ہٹو بھی اتنا تو آسان تھا میں
دعائیں تھیں کسی کی ساتھ میرے
بِنا دولت کے بھی دھنوان تھا میں
سمیر اب تو حوالے گرد کے ہوں
محبت کا کوئی دیوان تھا میں
شرافت سمیر
No comments:
Post a Comment