Wednesday, 28 May 2025

رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے

 رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے

نہ راس آیا جو ہنسنا تو رو دیا میں نے

کہیں پہ کوئی مِرا عکس ہی نہیں ملتا

کس انتشار میں خود کو ڈبو دیا میں نے

تم اپنے خواب کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لینا

متاعِ جاں کی تمنا تو کھو دیا میں نے

وہ روز میری انا کو ذلیل کرتا تھا

اسے بھی اپنے لہو میں ڈبو دیا میں نے

تمہارے نام جو دل کے ورق پہ روشن تھا

وہ ایک حرفِ عقیدت بھی دھو دیا میں نے


خورشید سحر

No comments:

Post a Comment