Friday, 16 May 2025

زندگی کا رسن و دار سمجھ رکھا تھا

 زندگی کا رسن و دار سمجھ رکھا تھا

راہِ یک گام و دُشوار سمجھ رکھا تھا

تھا عجب میرے گناہوں میں اک احساس لطیف

مجھ کو خود جس نے خطاوار سمجھ رکھا تھا

وہ محض دھوپ کا اک رخ تھا جسے لوگوں نے

آج تک سایۂ دیوار سمجھ رکھا تھا

آج پیش آیا ہے وہ شخص بھی غیروں کی طرح

ہم نے بھولے سے جسے یار سمجھ رکھا تھا

کم نہ تھا اس کا سایہ کسی راہی کے لیے

جس کو گرتی ہوئی دیوار سمجھ رکھا تھا

آج یوں بک گیا وہ شخص بھی سکوں کے عوض

ہم نے خود جس کو خریدار سمجھ رکھا تھا

لیجیے رند بھی اک خشک سمندر نکلا

ہم نے گنگا کی جسے دھار سمجھ رکھا تھا


رند ساغری فتح گڑھی

No comments:

Post a Comment