Saturday, 24 May 2025

فائدہ کچھ نہیں اشاروں سے

 فائدہ کچھ نہیں اشاروں سے

ہم بہت دور ہیں کناروں سے

دل منور ہوا شراروں سے

ہم کو نسبت ہے چاند تاروں سے

خوب مہکے خزاں کے موسم میں

زخم کھائے تھے جو بہاروں سے

گلستاں آپ کو مبارک ہو

اپنی عظمت سے ریگزاروں سے

پھول برسے ہیں بعد مرگ ان پر

شغل کرتے رہے جو خاروں سے

یاد پھر رنگ میں نظر آئی

زندگی بھر گئی نظاروں سے

انتظاری تو جان لے لیتی

صبر ملتا رہا ستاروں سے

کوئی آواز جب نہیں ہوتی

ساز بجھتے ہیں دل کے تاروں سے

دل کی گہرائیاں کہاں تک ہیں

شوق پوچھو یہ غم کے ماروں سے


شوق مرادآبادی

No comments:

Post a Comment