کیا شکایت ہو بھلا اس سے ہو شکوہ کیسا
وقتِ مشکل جو نہیں اپنا تو اپنا کیسا
مفلسی شہر سے رخصت ہوئے عرصہ گزرا
پھر تِرے شہر میں یہ شور شرابہ کیسا
اب نئے پھول چمن میں بھی نہیں دکھتے ہیں
رنگ چھایا ہے بہاروں پہ خزاں سا کیسا
ہیں اگر امن و محبت کے سبھی شیدائی
پھر بھلا دنیا میں یہ خون خرابہ کیسا
کیا یہاں جھونپڑی اب کوئی نہیں باقی ہے
آج گلیوں میں امیروں کی اندھیرا کیسا
تیر آنکھوں سے چلا اور ہوا دل زخمی
ان حسینوں کی ہے نظروں کا نشانہ کیسا
دوست ہو چاہے کہ پھر آپ کا دشمن ہو تقی
دل نہ جب تک ملے پھر ہاتھ ملانا کیسا
تقی ککراوی
No comments:
Post a Comment