جسے لالچ نہ ہو ایسا بڑی مشکل سے ملتا ہے
غریب انسان کو رشتہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
امیروں کے تو قدموں میں پڑی رہتی ہے یہ دولت
مگر مزدور کو پیسہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
اندھیروں میں اجالا ڈھونڈنے والوں کو سمجھا دو
سیاست میں کوئی "سچا" بڑی مشکل سے ملتا ہے
وہ سجدہ جس پہ سجدے سیکڑوں قربان ہو جائیں
وہ پیشانی کو اک سجدہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
کہیں ماں باپ کا سایہ نہیں ملتا ہے بچہ کو
کہیں ماں باپ کو بچہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
کبھی پوری غزل یوں ہی اتر آتی ہے کاغذ پر
کبھی مصرع کو اک مصرعہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
ناظم اشرف بجنوری
No comments:
Post a Comment