وہ زخم دے کے مجھے اندمال پُوچھے گا
تڑپتے دیکھے گا اور میرا حال پوچھے گا
مِری تو جتنی بھی گُزری ہے ہجر میں گُزری
تو مجھ سے کیا کوئی لُطفِ وِصال پوچھے گا
وہ جس کی چاہ میں سب کچھ لُٹا دیا میں نے
وہی تو زیست کا حاصل مآل پوچھے گا
مِری تباہی میں جو ہاتھ ہے اُسی کا ہے
زمانہ مجھ سے بھلا کیا سوال پوچھے گا
مِرے وجود سے نفرت ہے اس کا سرمایہ
ستم بھی ڈھائے گا کیوں ہوں نڈھال پوچھے گا
تو کیا کہے گا اسے کیوں بُھلا دیا شارب
تِرا ضمیر اگر یہ سوال پوچھے گا
سید اقبال رضوی شارب
No comments:
Post a Comment