ڈوبے نہ کبھی جو وہ قمر مانگ رہے ہیں
تاریک نہ ہو جو وہ سحر مانگ رہے ہیں
پھیلا کے تھکے ہاتھ یہ لب سوکھ چلے ہیں
ہوتا ہے دعا میں جو اثر مانگ رہے ہیں
پھر تُو جو گیا ساتھ بصارت بھی گئی ہے
آ جائے ںظر جس سے، نظر مانگ رہے ہیں
ویسے تو کٹھن ہوتی ہے ہر ایک مسافت
ہے ساتھ جو تیرا تو سفر مانگ رہے ہیں
دنیا کو نیا موضوع کوئی چاہیے عامر
موجود نہیں جو، وہ خبر مانگ رہے ہیں
طفیل عامر
No comments:
Post a Comment