Thursday, 22 May 2025

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ

 دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ 

تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ

میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لیے 

دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ

ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں 

صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ

اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن 

کوئی جنت بھی اگر ہے پس دیوار نہ دیکھ

ان دمکتے ہوئے لمحات کے جادو سے نکل 

وقت کی چال سمجھ شوخئ رفتار نہ دیکھ

غم سے لڑنا ہے تو پھر غمزدہ صورت نہ بنا 

زندہ رہنا ہے تو مردوں کے یہ اطوار نہ دیکھ

میرے نغمات کو تفریح کے کانوں سے نہ سن 

رقص کی پیاس ہے آنکھوں میں تو پیکار نہ دیکھ

قدردانی کو مراتب کے ترازو میں نہ تول 

کون افسر! ہوا یوسف کا خریدار نہ دیکھ


سعید افسر

No comments:

Post a Comment