Thursday, 15 May 2025

حسن فطرت کو ہجوم عاشقاں درکار تھا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حُسنِ فطرت کو ہجومِ عاشقاں درکار تھا

عاشقوں کو بہرِ سجدہ آستاں درکار تھا

زندگی تھی چلچلاتی دھوپ میں زار و زبوں

رہروں کو سایۂ ابرِ رواں درکار تھا

بحر کو موتی ملے، تاروں کو تنویریں ملیں

اس سخاوت کو شہ ہر دو جہاںﷺ درکار تھا

اس بساطِ خاک کی نشو و نما کے واسطے

اِک حکیمِ آب و گلِ اِک چہرہ خواں درکار تھا

کفر کے نزغے میں گھبرائی ہوئی مخلوق کو

ذاتِ بر حق کا یقینِ بے گماں درکار تھا

اے زہے تقدیر، یہ نکلا محمدﷺ کا مقام

کوئی انسان و خدا کے درمیاں درکار تھا

حامیِ مخلوق سے خالق پہ اک آتی تھی بات

عاصیوں کو اِک شفیعِ عاصیاں درکار تھا

قافلے کو منزلِ انسانیت کے واسطے

نسلِ انساں سے امیرِ کارواں درکار تھا

زندگی پر کیسے کھل جاتے رموزِ زندگی

قولِ حق کو اُن کا اندازِ بیاں درکار تھا

منجمد تھی کب سے صحرائے عرب میں تِیرگی

حق نے پیغمبر وہیں بھیجا جہاں درکار تھا

اُن سے ملتے ہی نظر کافر مسلماں ہو گئے

اس کے معنی ہیں حرم کو پاسباں درکار تھا

دھوپ میں ڈھوئے تھے پتھر اس لئے سرکار نے

حشر کے دن رحمتوں کا سائباں درکار تھا

رحمتہ اللعالمینی سے جلے دل کے چراغ

اِنس و جاں کو خیر خواہِ اِنس و جاں درکار تھا

یا محمدﷺ تو نے رکھ لی مسلکِ آدم کی لاج

جس کو دانائے دو حرفِ کُن فکاں درکار تھا

سچ تو یہ ہے اس خدائے دو جہاں کے واسطے

بزمِ عالم میں رسولِ دو جہاںﷺ درکار تھا

ہاں مِرے سجدوں میں ہے دانش اسی در کی تڑپ

میری پیشانی کو اُن کا آستاں درکار تھا


احسان دانش

No comments:

Post a Comment