Wednesday, 28 May 2025

محتاج کرم صاحب مقدور کھڑے ہیں

 محتاج کرم صاحب مقدور کھڑے ہیں

نادار ہیں، مفلوج ہیں، معذور کھڑے ہیں

ناکردہ خطاؤں کی کئی تہمتیں اوڑھے

اے ظرف! ترے آگے یہ مجبور کھڑے ہیں

یہ سچ ہے مرا گھر تو چراغوں سے جلا ہے

کیوں خاص تماشائی بڑے دور کھڑے ہیں

ڈر ہے نہ گرا دے انہیں اک روز یہ بارش

کھنڈر کے ستوں ہیں بڑے مغرور کھڑے ہیں

کس در سے ملے آج نہ جانے انہیں روزی

فٹ پاتھ پہ لاچار جو مزدور کھڑے ہیں

اب بول کہ ہم ہنسنے ہنسانے کہاں جائیں

اے بزمِ طرب! دیکھ تو رنجور کھڑے ہیں

ممکن ہے خدا اور ہدایت سے نوازے

راشد ہے مگر پھر بھی سرِ طُور کھڑے ہیں


راشد عارفی

No comments:

Post a Comment