تبدیلی کا اشارہ
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
مگر آثار کہتے ہیں
اسی ظلمت گزیدہ راہ سے سورج کو آنا ہے
فصیلوں پر جمی گہری سیاہی کے افق سے
چمکتی دھوپ کے منظر کو کھلنا ہے
ہمیں اس نیند سے بیدار ہونا ہے
بھلے رستے پہ تم ناکے لگا لو
دریچے بند کر لو
در و دیوار پر شیشے کے ٹکڑوں کو جما دو
کہیں سے روشنی آنے کے سب روزن بجھا دو
کبھی تازہ ہوا کو راستہ مت دو
سڑک کے ہر طرف کانٹے بچھا دو
اندھیرے دائمی کر دو
گھٹن بے انتہا کر دو
فضا بارود سے مسموم کر دو
مگر، امکان کا در باز ہونا ہے
گجر بجنے کو ہے
یہی آثار کہتے ہیں
نوشابہ نرگس
No comments:
Post a Comment