کیا عجب مرنے پہ بھی عشق کی خُو ساتھ رہے
سُوکھ بھی جائے اگر پھُول تو بُو ساتھ رہے
کانپتے ہاتھوں سے دامانِ تقدس نہ چھٹے
میکدے جاؤں تو اک ظرفِ وضو ساتھ رہے
اے خیالِ رخِ جاناں! مِری جاں تجھ پہ نثار
دونوں عالم مجھے حاصل ہیں جو تُو ساتھ رہے
ہم گدائے در مے خانہ کو ہے کام سے کام
جام و ساغر نہ سہی ایک عدُو ساتھ رہے
چھوڑ جاتا ہے کوئی اپنی ضرورت کی چیز
جاؤں مسجد میں جو میں جام و سبُو ساتھ رہے
اشکِ خُونین کا بھی تار نہ ٹُوٹے اے دل
زخم غم کے لیے اک تارِ رفُو ساتھ رہے
قطرۂ اشک نہ خالی رہے رنگینی سے
جب کبھی آنکھ سے نکلے تو لہُو ساتھ رہے
تجھ پہ کُھل جائے تِرے دل کی حقیقت زاہد
ایک دم بھی جو کوئی آئینہ رُو ساتھ رہے
تیر صیاد نہ نکلے تِرے دل 💘 سے بیدل
توڑ کر نکلے بھی دل کو تو لہُو ساتھ رہے
بیدل عظیم آبادی
عبدالمنان بیدل
No comments:
Post a Comment