بفیض عشق میرا تذکرہ کہاں نہ ہوا
فسانہ پھر بھی کوئی زیبِ داستاں نہ ہوا
ازل سے آپ ہی اپنے رہے ہیں دُشمنِ جاں
ہمارے درپئے آزار آسماں نہ ہوا
ہمیشہ یونہی تعصّب کی دُھوپ میں پگھلا
برہنہ سر پہ مِرے کوئی سائباں نہ ہوا
مجھے مٹانے میں ان کے بھی نقش مٹتے گئے
مِری تباہی سے کیا ان کا کچھ زیاں نہ ہوا
تمام عمر اگرچہ غریبِ شہر رہا
مجھے یہ فخر ہے حاصل کہ بے زباں نہ ہوا
جتن ہزار کیے اس کو رام کرنے کے
یہ عمر ہو گئی لیکن وہ مہرباں نہ ہوا
اسے بھی اپنے بچاؤ کی فکر تھی خاور
فقیہہ شہر جبھی میرا رازداں نہ ہوا
خورشید خاور امروہوی
No comments:
Post a Comment