گزر جہاں کے خنجرِ دو دم سے کھیلتا ہُوا
خوشی سے کھیلتا ہوا، الم سے کھیلتا ہوا
ہوائے دَیر و کعبہ و حرم سے دُور دُور
ہوائے دَیر و کعبہ و حرم سے کھیلتا ہوا
کسی کے گیسوؤں کے پیچ و خم کا ہو کے رہ گیا
کسی کے گیسوؤں کے پیچ و خم سے کھیلتا ہوا
نگاہِ مست میں جہان بھر کی مستیاں لیے
وہ کون آ رہا ہے جامِ جم سے کھیلتا ہوا
تمام عمر کھیلتے رہے قضا کی گود میں ہمیں
یہ کیا مذاق کر گیا تُو ہم سے کھیلتا ہوا
بُلندیوں کو پستیوں کو روندتا چلا گیا
ہنسی خُوشی تمہارے ہر قدم سے کھیلتا ہوا
ابھی تو رِینگتا ہُوا عدم کو جا رہا ہوں میں
پھر اُلٹے پاؤں آؤں گا عدم سے کھیلتا ہوا
پنڈت امرناتھ ہوشیارپوری
No comments:
Post a Comment