عمر بھر ہم نے کوئی زخم نہ بھرتے دیکھا
دلِ مجروح طبیبوں سے الجھتے دیکھا
اتنی مہلت ہی نہ دی اس نے کہ ہم کچھ کہتے
ہم نے سمٹے ہوئے لفظوں کو بکھرتے دیکھا
آئے بادل تو گھڑے توڑ دئیے ہم نے بھی
اور پھر ان کو نہ آنگن میں برستے دیکھا
جس کے سائے تلے بیٹھے تھے تپش سے بچ کر
خود پہ اس پیڑ کو ہی ٹوٹ کے گرتے دیکھا
وقتِ رُخصت نہ دُعا دی نہ ہی آگے آئے
ایک دریا تھا کہ آنکھوں سے ٹپکتے دیکھا
عائشہ غفار عاشی
No comments:
Post a Comment