Sunday, 18 May 2025

وفا شناس ہی جب عشق کا امیں نہ رہے

 وفا شناس ہی جب عشق کا امیں نہ رہے

تو کیا رہے بھی اگر طور ملحدیں نہ رہے

تیری گلی کے نکالے نکل گئے بن کو

رہا نہ کچھ بھی ہمارا جو ہم وہیں نہ رہے

اس ایک پل کو غذائے حیات کر لوں گا

کبھی تو تیری زباں محور نہیں نہ رہے

ہماری مان لے اب تو، کہیں نہ ایسا ہو

ملے جو سنگ تو سجدے کو پھر جبیں نہ رہے

تُو زہد کش ہے کہ کل رات رب پرستوں نے

تیرا جلوس جو دیکھا تو نیک دیں نہ رہے

تمہارے کوچہ کے دربان بن گئے اب تو

گل و عنادل و خوشبو چمن مکیں نہ رہے

کبھی دغا بھی جو دینا تو بس بتا جانا

کوئی علاج کہ جس سے یہ دل حزیں نہ رہے

ادھر شراب، ادھر زندگی حرام ہوئی

خسارہ ہے نا جو پہلو میں ہمنشیں نہ رہے

دعا ہے رب سے کہ محبوب میرا اے شامی

حسیں رہے نہ رہے، مار آستیں نہ رہے


فیروز شامی

No comments:

Post a Comment