وفا شناس ہی جب عشق کا امیں نہ رہے
تو کیا رہے بھی اگر طور ملحدیں نہ رہے
تیری گلی کے نکالے نکل گئے بن کو
رہا نہ کچھ بھی ہمارا جو ہم وہیں نہ رہے
اس ایک پل کو غذائے حیات کر لوں گا
کبھی تو تیری زباں محور نہیں نہ رہے
ہماری مان لے اب تو، کہیں نہ ایسا ہو
ملے جو سنگ تو سجدے کو پھر جبیں نہ رہے
تُو زہد کش ہے کہ کل رات رب پرستوں نے
تیرا جلوس جو دیکھا تو نیک دیں نہ رہے
تمہارے کوچہ کے دربان بن گئے اب تو
گل و عنادل و خوشبو چمن مکیں نہ رہے
کبھی دغا بھی جو دینا تو بس بتا جانا
کوئی علاج کہ جس سے یہ دل حزیں نہ رہے
ادھر شراب، ادھر زندگی حرام ہوئی
خسارہ ہے نا جو پہلو میں ہمنشیں نہ رہے
دعا ہے رب سے کہ محبوب میرا اے شامی
حسیں رہے نہ رہے، مار آستیں نہ رہے
فیروز شامی
No comments:
Post a Comment