Saturday, 17 May 2025

رحمت و نور کا اک چشمۂ جاری قرآں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رحمت و نور کا اک چشمۂ جاری قرآں 

باغِ عالم کے لیے بادِ بہاری قرآں

آئی ہے نبضِ دو عالم میں حرارت اس سے 

بزمِ کونین میں ہے جلوۂ باری، قرآں 

مصدرِ حکمت و دانائی ہے اک اک نقطہ 

ہر اندھیرے میں ہے اک تابشِ کاری، قرآں

اس کے ہر رُخ میں ہے لاریب کی طلعت ایسی 

تا ابد رکھتا ہے ایقانِ ہزاری قرآں

جاگ اٹھتی ہے تلاوت سے حیاتِ غافل 

وجد کر دیتا ہے ہر ایک پہ طاری قرآں

تھم کے رفتارِ زمانہ بھی اسے سنتی ہے

جھوم کر پڑھتے ہیں جب حافظ و قاری قرآں

ظلمتِ غم میں جلاتا ہے مسرّت کے چراغ 

مسکراہٹ سے بدل دیتا ہے زاری، قرآں

جسم و جاں، فکر و نظر، علم و ہنر سب مہکے

ہے کمالات و فضائل کی وہ کیاری قرآں

یہ جو آیا، تو صحیفے ہوئے سارے منسوخ 

حشر تک ساری کتابوں پہ ہے بھاری قرآں

شب میں اترے تو شبِ قدر بنا دے اس کو

دن میں اترے، تو ہو اعزازِ نہاری، قرآں

قبر میں، حشر میں، جنت میں رفیق و ہمدم 

ہے بڑی پختہ یقیناً تِری یاری، قرآں

پا گئے کتنی بلندی، تِرے صدقے حُفاظ 

سارے اعزاز تِرے در پہ ہیں واری قرآں

تیری تعلیم سے کردارِ بشر نکھرا ہے 

یعنی تقدیرِ اُمم تُو نے سنواری، قرآں 

تیرے احزاب، زمانے میں ہیں سب پر غالب 

فوج تیری، نہ کسی جنگ میں ہاری قرآں

جو مِلا، جس کو مِلا، تیرے ذریعے سے مِلا 

شوکتیں تجھ سے ہیں عالم کی یہ ساری قرآں

نقد رہتا ہے سدا خدمتِ قرآں کا صِلہ 

خود پہ رکھتا ہی نہیں کوئی اُدھاری قرآں

کیسے کیسے ہمیں اعزاز دئیے ہیں تُو نے

جان و دل سے ہے تِری شکر گزاری قرآں   

تازگی باغِ محبت کو عطا کرتا ہے 

شجرِ بغض و عداوت کو ہے آری، قرآں 

ماننے والوں کو جنت کی خبر دیتا ہے

جو ہیں مُنکِر، اُنہیں کر دیتا ہے ناری، قرآں

جوہرِ فکر و نظر جو بھی فریدی کو ملا 

سب تِرے در کی ہے یہ فیض نگاری قرآں


فریدی صدیقی مصباحی

No comments:

Post a Comment