ہم اپنے حصے کا سارا ثواب جھیلتے ہیں
جو لفظ لکھتےہیں اس کا حساب جھیلتے ہیں
ابھی بھی حور و شرابِ طہور کی خاطر
بہت سے لوگ بہت سا عذاب جھیلتے ہیں
غنی، غنی ہے جو تعبیر بن برستا ہے
یہ کیسے لوگ ہیں دو پل بھی خوش نہیں رہتے
شراب پیتے ہیں، اور پھر شراب جھیلتے ہیں
یہ عہد اور یہ عادت زباں درازی کی
سوال کرتے ہیں لیکن جواب جھیلتے ہیں
جو ڈوب جاتےہیں صحرا میں آن کر دریا
سمندروں کی طلب میں سراب جھیلتے ہیں
کچھ اس لیے بھی کسی بات سے نہیں واقف
ہمارے عہد کے بچے نصاب جھیلتے ہیں
وہ پھول پھول پہ لکھا دکھائی دیتا ہے
جو انتظار کا موسم گلاب جھیلتے ہیں
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment