اندھیرے رقص میں ہیں، نور کا منظر نہیں کھلتا
گجر بجتے ہیں لیکن، روشنی کا در نہیں کھلتا
وہ اپنی خلوتوں میں درد کے قصّے سناتا ہے
مگر شیریں بیاں واعظ، سرِ منبر نہیں کھلتا
ہماری کشتیِ جاں پر مسلّط، تیرہ بختی ہے
بھنور تو کھل گئے سارے، مگر لنگر نہیں کھلتا
ہزاروں عشق کے موسم ہمارے دل سے گذرے ہیں
ہمارے عشق کا لیکن، کبھی جوہر نہیں کھلتا
سرِ محفل تو وہ ہنس کھیل لیتا ہے قمر ہم سے
مگر تنہائیوں میں وہ حیا پیکر نہیں کھلتا
ادریس قمر
No comments:
Post a Comment