Monday, 14 November 2016

میں نے تو اس جانے والے سے بس اتنا کہنا تھا

میں نے تو اس جانے والے سے بس اتنا کہنا تھا
یوں تو پیار نہیں کرنا تھا، جب دو دن ہی رہنا تھا
تم نے ہمدردی سے دیکھا، میری اپنی غلطی ہے
اشکوں کو میں پی جاتا تو اشکوں نے کیوں بہنا تھا
شور مچانا بے مطلب تھا، چِلانا بے معنی تھا 
خود کو چوٹ لگا بیٹھا تھا درد تو آخر سہنا تھا
وہ جو ننگا پھرتا ہے تو پوچھو نوچنےوالوں سے
دیوانے کا چاک گریباں ہی تو اس گہنا تھا
ایسی بے آباد عمارت کب قائم رہ پاتی ہے
اتنا مت افسوس کرو وہ دل تھا اس نے ڈھہنا تھا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment