Monday, 14 November 2016

نئے برس سے بھی پہلے جناب چھوڑ دیں ہم

نئے برس سے بھی پہلے جناب چھوڑ دیں ہم
نظر ملاؤ، ابھی سے شراب چھوڑ دیں ہم
اگرچہ باس سے بیس اختلاف چل رہے ہیں
یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ جاب چھوڑ دیں ہم
وہ جس کو خواب میں ہم دیکھ کر بڑے خوش ہیں
جگائے، اور ادھورا ہی خواب چھوڑ دیں ہم
کلر سکیم بدل دیں چمن میں، اس کے لیے
سیاہ ٹہنیاں، پیلے گلاب چھوڑ دیں ہم
یہ سوچ کر کہ کسی سے کسی کی بنتی نہیں
خدا سے، خلق سے، خود سے خطاب چھوڑ دیں ہم
تو بھوکا مرنے دیں سولہ کروڑ لوگوں کو
تو پیاس بیاس میں، سوکھا چناب چھوڑ دیں ہم

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment