پرچھائیوں کی انجمن آرائی دے گیا
کتنی عجیب وہ مجھے تنہائی دے گیا
ایک ایک پل میں بیت رہی ہے ہزار عمر
صدیوں کا انتظار وہ ہرجائی دے گیا
وہ کتنا ہوش مند تھا جو میرے نام سے
میرا کیا علاج محبت کے زہر سے
قاتل مجھے فریبِ مسیحائی دے گیا
چہرے اب اصل روپ میں آئیں نظر قتیلؔ
آنکھیں چرا کے وہ مجھے بینائی دے گیا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment