Monday, 14 November 2016

اب تو مے کدے کی بھی شام بھول جاتا ہوں

اب تو میکدے کی بھی شام بھول جاتا ہوں
چہرے یاد رہتے ہیں، نام بھول جاتا ہوں
کر نہ لیں وہ آمادہ، مجھ کو ترکِ بادہ پر
دیکھ کر ان آنکھوں کو جام بھول جاتا ہوں
اس طرف سے ملتا ہے اک اشارہ ابرو کا
اور میں تمام اپنے، کام بھول جاتا ہوں
پیٹ کے تقاضوں نے کر دیا ہے نابینا
دانہ یاد رہتا ہے،۔ دام بھول جاتا ہوں
ہے تو سارا شہر اچھا، صرف اک برائ ہے
میں یہاں قتیلؔ اپنا، کام بھول جاتا ہوں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment