اب تو میکدے کی بھی شام بھول جاتا ہوں
چہرے یاد رہتے ہیں، نام بھول جاتا ہوں
کر نہ لیں وہ آمادہ، مجھ کو ترکِ بادہ پر
دیکھ کر ان آنکھوں کو جام بھول جاتا ہوں
اس طرف سے ملتا ہے اک اشارہ ابرو کا
پیٹ کے تقاضوں نے کر دیا ہے نابینا
دانہ یاد رہتا ہے،۔ دام بھول جاتا ہوں
ہے تو سارا شہر اچھا، صرف اک برائ ہے
میں یہاں قتیلؔ اپنا، کام بھول جاتا ہوں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment