بلا کے وار ہوں یاراں تو سر ہی جاتے ہیں
میاں! یہ زخم ہیں آخر کو بھر ہی جاتے ہیں
ہے بات یہ کہ تِرے التفاتِ بے جا سے
جو ہوش رکھتے ہیں وہ لوگ ڈر ہی جاتے ہیں
جہاں نہیں تمہیں جانے کی تاب اور تواں
جو لوگ کرتے ہیں جانے کی نوکری خود سے
وہ لوگ خود کو کہیں چھوڑ کر ہی جاتے ہیں
نہ کارواں، نہ جرس، اور نہ راہ اور منزل
جہاں بھی جاتے ہیں ہم بے سفر ہی جاتے ہیں
تو کیا عدم میں رہے ہو جو تم کو حیرت ہے
میاں! وجود کے نشے اتر ہی جاتے ہیں
مجھے یہ بات بہت ہی اداس کرتی ہے
بگڑنے والے بچارے سُدھر ہی جاتے ہیں
ہیں خیمہ گاہِ شمالِ گماں کے ہم مطرب
جنوبِ شام میں ہم بے اثر ہی جاتے ہیں
ہم اس کو یاد دلاتے ہیں اس کی بے تابی
یہ وار ہے تو چلو وار کر ہی جاتے ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment