پریشانی میں لکھی ایک نظم
یہ دنیا اک سور کے گوشت کی ہڈی کی صورت
کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے
اور میں نان و نمک کی جستجو میں
دربدر قریہ بہ قریہ مارا مارا پھر رہا ہوں
ذرا سی دیر کی جھوٹی فضیلت کے لیے
ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں
ہر قدم پر منزل عز و شرف سے گر رہا ہوں
اور میری انگشتری پر یا علی لکھا ہوا ہے
مگر انگشتری پر یا علی کندہ کرا لینے سے کیا ہو گا
کہ دل تو مرحبوں کی دسترس میں ہے
مسلسل نرغۂ حرص و ہوس میں ہے
عجب عالم ہے، آنکھیں دیکھتی ہیں
اور دل سینوں میں اندھے ہو چکے ہیں
اور ایسے میں کوئی حرفِ دعا اک خواب بنتا ہے
کبھی سلمان آتے ہیں کبھی بوذر
کبھی میثم کبھی قنبر میری ڈھارس بندھاتے ہیں
کمیل آتے ہیں، کہتے ہیں
پکارو افتخار عارف پکارو
اپنے مولا کو پکارو
اپنے مولا کے وسیلے سے پکارو
اجیب دعوت الداع کا
دعویٰ کرنے والے کو پکارو
یہ مشکل بھی کوئی مشکل ہے
دل چھوٹا نہیں کرتے
کریم اپنے غلاموں کو کبھی تنہا نہیں کرتے
کبھی رسوا نہیں کرتے
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment