Saturday, 3 October 2020

آدمی ہے نہ آدمی کی ذات

 آدمی ہے نہ آدمی کی ذات 

کیسی ویراں ہے تیرے شہر کی رات 

پوچھ لے ان اجاڑ گلیوں سے 

تجھے ڈھونڈا ہے ساری ساری رات 

میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں 

تُو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ 

اپنا سایہ بھی چھپ گیا ناصر 

یہاں سنتا ہے کون کس کی بات


ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment