ہماری عمروں سے رائیگانی کو کھا گئی ہے
فضا محبت کی بد گمانی کو کھا گئی ہے
بچھڑنے والے پلٹ کے آیا تو کِن دنوں میں
کہ جب جدائی مِری جوانی کو کھا گئی ہے
یہ روز و شب اپنے زیست سے خالی کٹ رہے ہیں
معاش کی فکر زندگانی کو کھا گئی ہے
وہ چاہتا تھا کہ اس کے آگے میں گِڑگڑاؤں
مِری انا اس کی خوش گمانی کو کھا گئی ہے
خبر نہیں ہو رہی ہمیں کچھ بھی اس دھویں میں
بُجھی ہوئی ہے یا آگ پانی کو کھا گئی ہے
ہُوا نہیں آج فرطِ غم میں بھی کارگر یہ
یہ ضبط کی خُو حسن روانی کو کھا گئی ہے
عطاءالحسن
No comments:
Post a Comment