کوچۂ دل میں کوئی آیا نہ گیا
ہم سے ایک شخص بھُلایا نہ گیا
پہلے تو پاس ہی آیا نہ گیا
پھر تیرے پاس سے جایا نہ گیا
کل کو ملتے ہیں یہ کہہ کر چلے تھے
عمر بھر پھر کوئی آیا نہ گیا
ہم تو سوئے تھے ایک نئی صبح کو پر
عمر بھر ہم کو جگایا نہ گیا
کانٹوں سے کپڑے چھُڑا لیتے تھے
ہاتھ زُلفوں سے چھُڑایا نہ گیا
ہاتھ کے لمس سے جھُریاں چھُو لیں
آئینہ خود کو دکھایا نہ گیا
ارشد امید
No comments:
Post a Comment